سنئیر دانشور کا دیسی تصور

اب جیسے ڈاکٹر شاہد مسعود پر آن پڑی ہے، اہل سیاسیت اور صحافت اس کے درپے ہیں، کہ اس نے قوم کو ہیجان بیچا، ایسے ہی بات چل نکلی ہے ، آپ پچھلے ایک عشرے میں شہرت پانے والی اینکرز، اور تجزیہ کاروں کے نام لیں، ان میں سے کتنے ہیں جن کے تجزیات پر مغز ہیں۔
کچھ ضدی بچوں کی طرح ایک ہی بات دہرا دہرا کر اپنی گفتگو میں وزن پیدا کرتے ہیں، اور کوئی گلے کے بل چیخ چیخ کر، کسی کو اپنی چڑیا کی پرواز کا زعم ہے اور کسی کے مخبر کی ایوان بالا کے بیڈ رومز تک پہنچ ہے۔

ویسے ہمارے دیسی حساب سے اچھا تجزیہ کار ، کالم نگار اور دانشور کون ہوتا ہے، میرے خیال میں جس کی اردو زبان کچھ بہتر ہے وہی کچھ دنوں بعد خود ہی سنئیر تجزیہ کار بن جاتا ہے، دو چار مضامین ادھر ادھر سے پڑھے اور تجزیہ کار ہو گئے، دنیا بدلتی جا رہی ہے، کبھی آپ نے سوچا کہ کالم نگاری کی جگہ بلاگنگ کیوں آتی چلی جا رہی ہے، کیونکہ ہر ابھرتے ہوئے مسئلے پر اپنے سنہری خیالات پیش کرنے کا دور اب ختم ہو چکا، لوگ ہر شعبہ میں ان کے ماہرین سے جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں، پاکستان میں پچھلے چند برسوں میں دفاعی تجزیہ کاروں کا اضافہ ہوا، اہستہ آہستہ سپشلسٹ لوگوں کو سامنے لانے کا رجحان پروان چڑھا ہے، لیکن پھر بھی ابھی تک چند لوگ اچھے تجزیہ کار صرف اس لئے ہی ہیں کہ ان کی تحریر بہت خوبصورت ہے۔

میرے ذاتی خیال میں تحریر کی خوبصورتی اور بیان کی ندرت کا تجزئیے سے بہت زیادہ تعلق نہیں ہے، اچھا تجزیہ شواہد اور معلومات پر مبنی ہوتا ہے، نا کہ اچھے الفاظ اور تشبیہات پر۔۔۔ابھی تک ہمارے لوگ لفظوں کی چھن چھن  پر کان زیادہ دھرتے ہیں اس لئے مارکیٹ میں کہانیاں بیچنے والوں کی بکری زیادہ ہوتی ہے اور بعد میں جب کوئی پوچھتا ہے کہ بھائی یہ کہانی کہاں سے آئی تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا کام ہے خبر دینا اور تحقیق کا کام دوسروں کا ہے۔۔

کہانیاں سناتے سناتے بہت سے لوگ سنئیر تجزیہ کار، دانشور اور قلم کار ہو گئے، اب اگر لوگوں نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے پاوں تلے سے زمین کھنچی ہے تو ضروری ہے باقی کہانیاں کہنے والے انشا پردازوں کی گل افشانیوں پر بھی نظر کی جائے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں