لیجئے ایمسٹرڈم کی سیر کیجئے

میں نے اب تک تین بار ایمسٹرڈیم دیکھا ہے، دو دفعہ دوستوں کے ساتھ اور ایک دفعہ اکیلے، ایمسٹرڈیم کے رنگوں میں کچھ ایسا ہے جو آدمی کو بیزار نہیں ہونے دیتا، پہلی بار دیکھا تو پہلی نظر میں ہی اچھا لگا، اس وقت ہم ایک بس کے ذریعے پیرس سے ایمسٹرڈم آئے تھے، بس میں گذرے یہ چند گھنٹے مجھے ایک ڈچ خاتون کے ساتھ بٹھنے اور بات کرنے کا اتفاق ہوا ، اس ملاقات میں ہی ایمسٹرڈم کے خوبصورت ہونے کا یقین سا ہو گیا تھا، اگلی دفعہ میرے منہ سے ایمسٹرڈیم کی خوبصورتیوں کا تذکرہ سن کر ایک دوست نے مجھے اپنے آنکھوں سے اس شہر کو دکھانے کی درخواست کی تو انکار نہ کرسکا، اور ہم بذریعہ کار کوپن ہیگن سے ایمسٹرڈم کی طرف چل نکلے، راستے میں جرمنی کے ایک شہر کیل میں رات گذاری اور اگلی رات ایمسٹرڈم جا پہنچے، ایمسٹرڈم پہلے سے بھی خوبصورت لگا، مجھے لگا کہ کوئی یار مہرباں ساتھ ہوتو شہر کے رنگوں کی آسودگی میں اضافہ ہو جاتا ہے، اس دفعہ ایمسٹرڈم مجھے پہلے سے بھی تروتازہ اور جوان لگا، مجھے لگتا ہے کہ شہر بوڑھے نہیں ہوتے شاید جوان ہوتے چلے جاتے ہیں، نئی نسلوں کی آمد سے ان میں نئے رنگوں کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور وقت گذرنے کے باوجود بھی ان کے پرانے ہونے کا احساس نہیں دیتا اور ان کا یہ نیا پن ان کو مزید نکھارتا چلا جاتا ہے، ایمسٹرڈیم کی نہریں، پل، عمارتیں، گلیاں، سارا سال دنیا بھر سے لوگوں کو دعوت نطارہ دیتی ہیں۔ ان گلیوں کی یہ صدا ان سنی نہیں جاتی، سنٹرل اسٹیشن کے سامنے قائمہ زوایہ بناتی ہوئی سٹرک انسانی سروں کی لہلاتی فصل بنی رہتی ہے، یہاں لوگ یوں لپکے آتے ہیں کہ جیسے کوئی میلا لگا ہوا ہو۔ ایمسٹرڈم کا تیسرا ٹور دراصل کوکن ہاف گارڈن دیکھنے کے بہانے تھا لیکن اس دفعہ احساس ہوا کہ ایمسٹرڈم تو ہے ہی اکیلے گھومنے والا شہر۔۔۔جیسے کچھ راز انسان پر صرف تنہائی میں ہی کھلتے ہیں اور اپنے سامنے بھی ظاہر تنہائی ہی میں ہوتا ہے بس ایسے ہی ایمسٹرڈیم کی تنہائی بھی کسی حسینہ سے خفیہ ملاقات سے کم نہیں۔


ایمسٹرڈم داخل ہوں تو ایک فلمی قسم کے یورپ میں داخل ہو جاتے ہیں، سٹرکوں پر گھنٹیاں بجاتی ہوئی ٹرامیں، فٹ پاتھ کے کنارے میوزک بجانے والے فری لانسر، نہر کی سیر کرواتی کشتیوں، گھوڑوں پر گشت کرتی ہوئی پولیس، بازار حسن کی کھڑکیوں میں سجی بنی طوائفیں، دکانوں پر بکتی ہوئی چرس کی مصنوعات، نشہ مہیا کرنے والے کیفے، فر فر انگلش بولتی ہوئ ڈچ حسنائیں، وائی فائی سے لیس ٹرنیں، اور سب سے بڑھ کر سیاحوں کی ریل پیل۔

ایمسٹرڈم کی پہلی عمارت جو اس کی خوبصورتی کا احساس دلاتی ہے وہ اس کا سنٹرل سٹیشن ہے، یہاں سے روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں۔ یہاں بھی میں نے تین دنوں کے ایک ان لمٹیڈ سفری پاس لیا، جس کی قیمت غالبا بارہ یورو کے قریب تھی، اس پاس کا فائدہ یہ ہے آپ جتنا مرضی سفر کریں، ٹرین، میٹرو، ٹرام ، جس میں چاہیں بیٹھیں اور ایمسٹرڈم شہر کی حد میں جہاں چاہے اتر جائیں۔ لیکن اس پاس کی ٹائمنگ کے حوالے سے ایک چیز بڑی عجیب سی ہے، عمومی طور پر کئی ملکوں میں اس طرز کے سفری پاس خریدیں تو چوبیس گھنٹوں کے حساب سے قیمت لیتے ہیں ، جیسے ایک دن کا پاس شام پانچ بجے لیا تو اگلے دن شام پانچ بجے تک چلے گا ، لیکن ایمسٹرڈم میں تاریخ کے حساب سے سفری کارڈ ایشو ہوتے ہیں، یعنی رات گیارہ بجے پاس لیا تو بارہ بجے تاریخ بدلتے ہی آپ کا ایک دن گذر گیا۔

ایمسٹرڈم کو دیکھنے کے کئی طریقے ہیں، پیدل چل کر یہ بھی ہم خوب چلے، کشتی کے ذریعے یہ بھی ہم نے کر دیکھا، لوکل ٹرانسپورٹ کے ذریعے اس کے بھی ہم نے خوب پیسے پورے کئے،یعنی ایک ٹرام یا بس سے اترے تو دوسری میں جا بیٹھے۔  ایمسٹردم ہر طرح سے خوبصورت ہے۔ سنٹرل اسٹیشن کے مرکزی دروازے سے باہر آئیں اور سیدھی سٹرک پر چلتے جائیں، یہاں آپ کر شہر کے مختلف حصوں میں جانے والی ٹرامیں اور بسیں ملیں گی، چند قدم بڑھائیں تو دائیں ہاتھ شہر کی سیر کروانے والی کشتیاں ملیں گی۔ تھوڑا سا آگے بڑھیں تو وہی سڑک آغاز ہو جائے گی جس پر ہر موسم میں سیاحوں کا رش لگا رہتا ہے، اسی سڑک پر فرنچ فرائیر کی ایک دکان ہے جہاں لوگ لائینیں بنا کر آلو کی چپس خریدتے ہیں، اور مجھے اس آلو کی کوالٹی اور تازگی اور ان کی مہیا کردہ سوس واقعتا ورلڈ کلاس قسم کی چیز لگتی ہے، اس سال کے ٹور میں ، میں نے ابزرو کیا ہے کہ اسی طرز کی فرنچ فرائز کی دکانیں اب کافی جگہوں پر کھل گئی ہیں لیکن میرے خیال میں سب سے بہترین چپس اسی دکان کے ہیں جو اس سٹرک کے اسٹیشن والی سائیڈ کے آغاز پر ہے۔ یہاں سے کچھ آگے بڑھیں تو دائیں طرف ٹاون ہال کی عمارت آتی ہے، ٹاون ہال کی عمارت سے اگر دائیں ہاتھ ہو جائیں تو یہ سڑک نہروں کے پلوں کو کراس کرتے ہوئے مسجد الفتح والے علاقے میں لے جاتی ہے، یہ ایمسٹرڈم کی پہلی مسجد ہے، جو انیس سو اسی سے پہلے ایک گرجا گھر تھی، بعد میں یہاں قالینوں کا شوروم رہا اور پھر اس کو مسجد میں تبدیل کردیا گیا، اس عمارت کو باہر سے تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لئے صرف صلیب کا نشان اتار کر ہلال کا نشان لگا دیا گیا، جب کہ اندر جایا جائے تو تو ترکش سٹائل کے منبر سے سجی ہوئی ایک انتہائی خوبصورت مسجد ہے۔
سیاحوں میں گھرے ہر شہر میں میوزیموں کی بھر مار ہوا کرتی ہے، اس لئے آپ کو یہاں جگہ جگہ میوزم ملیں گے، بھنگ کی تاریخ کا میوزیم، سیکس کے آلات کا میوزیم ، نیشل میوزیم، آرٹ میوزیم، مادام تساو میوزیم۔۔۔۔یہ میوزیم اور وہ میوزیم۔۔۔۔اگر آپ میوزیم دیکھنے کے شوقین ہوں تو پھر آپ کے پاس ایمسٹرڈم کی سیر کے لئے کچھ لمبا وقت درکار ہے، لیکن ایک دو میوزیم جن کی ریٹنگ بہت ہی اچھی ہے ان میں وین گو میوزیم کی بہت شہرت ہے، میں نے صرف اس کے باہر لگی ہوئی لمبی قطاریں ہی دیکھی ہیں، اندر جانے کا اتفاق نہیں اور خواہش بھی پیدا نہیں ہوئی۔

ایمسٹرڈم کا تذکرہ ہو اس کی پرشباب راتوں کا ذکر نہ ہو تو ایمسٹرڈم ادھورہ رہ جاتا ہے، دنیا بھر سے سیاح ایمسٹرڈم کا بازار حسن دیکھنے کے لئے آتے ہیں، سنٹرل سٹیشن کے سامنے گذرتی سٹرک کی بائیں جانب خاصے بڑے علاقے کو ریڈ لائٹ ایریا کا درجہ حاصل ہے، اس علاقے میں داخل ہوتے ہی ایک سرخ بتی پر نظر پڑی جس کے نیچے ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا تھا، جی ہاں  یہ اصل ریڈ لائٹ ہے۔ یہاں کے بازار حسن کے اطوار نرالے ہیں، ہر گھر کے کا دروزہ سی تھرو گلاس سے بنا ہوا ہے، شام ڈھلے طوائفیں چار گرہ کپڑے میں ان شیشوں کے پاس آ کھڑی ہوتی ہیں، اس پرمستزاد یہ کہ بقول غالب
غنچہ نا شگفتہ کو دور سے نہ دکھا کہ یوں
ارے بوسے کو پوچھتا ہوں، منہ سے بتا کہ یوں
طرز کی ادائیں دکھاتی ہیں، جتنا رش دن بھر شہر کی گلیوں میں رہتا ہے، اس سے زیادہ شام کے بعد یہاں، یہاں تصویر بنانا منع ہے، کچھ لوگ چوری چھپے بنا بھی لیتے ہیں، اب سنا ہے کہ بتدریج وہ اس علاقے کو ختم کرنے کا سوچ رہے ہیں کیونکہ اس سے ایمسٹرڈم کی پہچان پر حرف آنے لگا ہے، اسی علاقے میں ایک چیز جو تیزی سے پروان چڑھتی ہوئی محسوس ہوئی وہ ہیمپ اور اس کی مصنوعات ہیں، ہمارے پہاڑی علاقے اس پودے میں خود کفیل ہیں، یہاں یہ پودے گملوں میں لگا کر بیچے جاتے ہیں، حتی کہ آپ ان کو گھر میں بھی اگا سکتے ہیں اور اپنے حصے کی ہیمپ خود سے پیدا کر سکتے ہیں، لیکن کمرشل بنیادوں پر کام کرنے کے لئے آپ کو لائسنس درکار ہے، یہاں بیچ سے لیکر کھاد تک پورا انتظام آپ کو فروخت کیا جاتا ہے، اس سے بننے والی مصنوعات کی فہرست دیکھیں اور ہیمپ میوزیم سے اس پودے کی کرشماتی تاریخ اور فوائد کو دیکھیں تو دل میں افسوس پیدا ہوتا کہ ہم نے تو اس کا کفران نعمت ہی کرتے آئے ہیں؟
ہیمپ ، بھنگ اور چرس کی بنیاد بننے والا پودا ہے، پاکستان میں تو اس سے میلوں ٹھیلو ں میں پکوڑے نکالے جاتے ہیں یا سیگریٹ میں بھر کر پی جاتی ہے، لیکن یہاں ہیمپ کے لالی پاپ، بسکٹ، کیک، حتی کہ آئسکریم، اور انرجی ڈرنک تک بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ یہاں مختلف کیفوں میں یہ قانونی طور پر بیچی جاتی ہے اور آپ وہاں بیٹھ کر جوڑا بنا کر انجوائے بھی کر سکتے ہیں۔
وہ جو ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا کہ دوبئی میں ایک ایمسٹرڈم کی حسینہ سے ملاقات ہوئی پوچھنے لگی کہاں سے ہو ، میں نے کہا پاکستان سے تو آنکھوں میں آنسو بھر لائی اور کہنے لگی کہ آپ کے ملک کی چرس بہت خالص ہوتی ہے۔۔۔۔لیکن ہیمپ سے بننے والی مصنوعات دیکھ کر دل میں کئی دفعہ خیال ضرور آیا کہ اس کی پراڈکٹ ڈویلپمنٹ پر پاکستان میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے ہاں یہ پودا جڑی بوٹی کی طرح اگتا ہے۔
ایمسٹرڈم کے کوکن ہاف گارڈن کے لئے ایک الگ باب درکار ، اس کی خوبصورتیوں کا ایک عالم دیوانہ ہے، ہر سال موسم بہار میں تقریبا دو ماہ کے لئے یہ باغ کھولا جاتا ہے جس میں ستر لاکھ سے زائد پھول لگائے جاتے ہیں، ایمسٹرڈیم کے گرد و نواح میں بہار کے موسم میں ٹیولپ کے کھیت دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، یہی وہ جگہیں ہیں جہاں مشہور گیت دیکھا ایک خواب تو یہ سلسلے ہوئے فلمایا گیا تھا۔ اگر آپ کو ایمسٹرڈم تک جانے کا موقع ملے تو اس کے بالکل پاس ہی لائیڈن نامی ایک علاقہ ہے، جسے ایک تعلیمی شہر کی اہمیت حاصل ہے، اس شہر کی ایک دیوار پر جہاں دنیا بھر کے شعرا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے وہاں ناصر کاظمی صاحب کی ایک غزل سے بھی شہر کی ایک دیوار کو رونق بخشی گئی ہے۔

ایمسٹرڈم دیکھنے کے لئے اگر وقت کم ہو تو بوٹ ٹور لیا جا سکتا ہے، جو ایک سے ڈیڑھ  گھنٹے پر مشتمل ہوتا ہے، اس دوران وہ شہر کے اندر گذرنے والوں نہروں سے گذرتے اور ساتھ ساتھ شہر کی عمارات اور گلیوں کے متعلق معلومات دیتے ہیں، اسی بوٹ ٹور پر گائیڈ نے ایک بات بتائی کے نہر کی طرف جس کا گھر جتنی زیادہ جگہ گھیرے گا اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی، کیونکہ اب یہاں جگہ بہت مہنگی ہوتی چلی گئی تو لوگوں نے اوپر کی جانب لمبوترے گھر بنانے شروع کر دئیے، اب اگر آپ نہر پر بنے ہوئے بہت سے گھروں پر غور کریں تو باہر سے دیکھنےپر یہ گھر بہت تنگ تنگ دکھائی دیتے ہیں۔ بوٹ ٹور میں تھوڑا ٹوسٹ ایڈ کرنے کے لئے ذاتی کشتی یعنی پرائیویٹ کشتی بھی بک کروائی جا سکتی ہے لیکن ہم نے اس عوامی کشتی پر ہی اکتفا کیا،۔
اگر آپ کو میری طرح پھولوں سے دل چسپی ہو تو دنیا کی سب سے بڑی پھولوں کی منڈی بھی ایمسٹرڈم میں ہی موجود ہے، اس کی سیر بھی لائف ٹایم تجربہ ہے، بس یہ ہے کہ اس کے لئے صبح صبح جاگ کر جانا پڑتا ہے، لاکھوں، پھولوں کی تجارت ، ان کی منتقلی کا ایک شاندار نظام دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، گو کہ آپ پہلی منزل سے نیچے ہال میں دیکھ کر نظارہ کر رہے ہوتے لیکن آپ کے سامنے دنیا بھر کے پھولوں کی لدی ہوئی چھوٹی چھوٹی ٹرالیاں گذرتی ہیں تو آنکھوں تو بہت بھلی یادیں چھوڑ جاتی ہیں۔
آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ ایمسٹرڈم میں کیا ہے تو میرا جواب ہو گا کہ ایمسٹرڈم میں زندگی ہے، آپ کو ایک چہل پہل کا احساس ہوتا ہے، ایک رونق اور میلے کا سا ماحول لگتا ہے، اگر آپ بھی زندگی کی روٹین سے تنگ آ ئے ہوئے ہیں اور تازہ دم ہونا چاہتے ہیں تو ایمسٹرڈم کے دامن میں آپ کے بہت کچھ ہے۔۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں