بلھے شاہ ان ڈنمارک

بلھےشاہ اسی مرنا ناہی گور پیا کوئی ہور، سٹیج کے نیم تاریک حصے سے ایک بھرپور آواز نے آن کی آن میں سارے ماحول کو اپنے قابو میں کر لیا، پاکستان کے سٹیجوں کے لئے یہ آواز اور لب و لہجہ شاید سنا سنا ہو گا مگر ڈنمارک اور اور اس کے دارلخلافہ کوپن ہیگن کے کچھ پچاس کلو میٹر دور ہیلسنگور نامی اس شہر کے اس تھیٹر کے یہ آواز بالکل نئی تھی، یہ تھیٹر کرونبرگ کے قلعہ کے بالکل سامنے سمندر کے کنارے واقع ہے، یہ وہی قلعہ ہے جس کا تذکرہ شیکسپئر کے مشہورڈرامہ ہیملٹ میں کیا گیا ہے، ایسی تاریخی جگہ کے پہلو میں ایک نئی تاریخ رقم ہو رہی تھی، پاکستان کا اجوکہ تھیٹر اپنا مشہور ڈرامہ  بلھا  پیش کرنے کے لئے ڈنمارک میں آیا ہوا تھا۔ اس ڈرامے کے انعقاد کی کچھ بھی ایڈورٹائزنگ نہیں کی گئی تھی، جس کی کوئی وجہ میں میری سمجھ سے بالاتر ہے، مجھےاس ڈرامے کے حوالے سے آج شام ہی پتہ چلا اور میں ڈرامہ دیکھنے کے لئے تیار ہو گیا، ڈرامہ دیکھنے والے مجمع میں پاکستانی کم اور ڈینش زیادہ تھے، ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے پاکستان میں ڈنمارک کے سفیر مسٹر اولے نے تمام حاظرین کو خوش آمدید کہا، اس کے بعد ڈنمارک میں پاکستانی سفیر محترم مسرور احمد جونیجو نے حاظرین سے ڈرامے اور پاکستان اور ڈنمارک کے مابین ثقافتی تعلقات کے حوالے سے مختصر باتیں کی۔ اور پھر ڈرامے کا آغاز کر دیا گیا۔
اجوکا ٹیم سفیران گرامی کی ساتھ 

پاکستانی سفیر محترم مسرور احمد جونیجو، ڈینش سفیر پاکستان مسٹر اولے کے ساتھ بھلا دیکھنے کے بعد 

بھلے شاہ کی زندگی ، شاعری اور پیغام پر مبنی اس ڈرامے نے ایک اداس رخ سے آغاز لیا، بھلے شاہ کا جنازہ مفتی شہر کے پاس لایا جاتا ہے کہ وہ بھلے شاہ کا جنازہ پڑھا دیں، لیکن مفتی شہر کہتا ہے کہ پہلےاس بات کا پتہ کرنا ہو گا کہ بھلا حالت ایمان میں بھی مرا کہ نہیں، پھر اس کے بعد بھلے شاہ کے زندگی کے مختلف اداور کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا، بھلے شاہ کا شاہ عنایت کا مرید ہو جانا، شاہ عنایت کا روٹھ جانا، بھلے شاہ کا مرادی بیگم سے جا کر ناچ سیکھنا، ناچ کر مرشد کو منانا، بھلے شاہ کر سردار بندہ سنگھ بہادر سے حسن سلوک، اور اس کو امن قائم رکھنے کا درس دینا، بھلے شاہ کی قصور سے بے دخلی اور شہر سے باہر ٹھکانا بنانا، اور وفات ، اور پھر مفتی شہر سے بھلے کا جنازہ نہ پڑھائے جانے کا اعلان ، اور بھلے شاہ کے مزار پر ماننے والوں کی حاظری، ان سب حصوں کو انتہائی خوبصورتی سے جوڑا گیا تھا۔ اتنی خوبصورتی سے کہ کوئی ماہر سے ماہر کاری گر بھی متاثر ہوئے بنا نہ رہ سکے۔

اپنی جاندار کہانی اور خوبصورت مکالموں کے علاوہ ادائیگی کے حوالے اتنی خوبصورتیاں اکٹھی کی گئی تھیں کہ ایک ایک منظر پر واہ واہ کی صدا آتی تھی، فنکاروں، صدا کاروں، اور قوالوں کی محنت سے ایک ایک منظر یوں تصویر ہو رہا تھا کہ بس ۔۔۔۔کہانی میں اتنی جذباتیت اور دلکشی تھی کہ آنکھیں بار بار نم ہوتی تھیں۔ بلاشبہ کہانی کی ڈائریکٹر مدیحہ گوہر اور کہانی کار شاہد ندیم لائق تحسین ہیں جنہوں نے ایسے پیچیدہ موضوع کو اس مختصر وقت میں ناظرین کے سامنے لانے کی سعی کی تھی۔

ان آنسووں میں ان فنکاروں کی محنت اور کہانی سے جڑے تاثرات کے علاوہ بھی کچھ آنسو جمع ہو گئے تھے، کہ اس بڑے پلیٹ فورم پر پاکستان کی ثقافت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ صوفی اسلام کا تصور جسے بیرون ملک لوگوں کے دل  نرم کرنے کے لئے ایک موثر اوزار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، نہائت احسن طریقے سے ڈنمارک کے رہنے والوں میں اپنا گھر کر رہا تھا۔
فنکاروں نے اپنے اپنے کردار کو بخوبی نبھایا، بلھے شاہ کا کردار کرنے والے فنکار سے لیکر مفتی شہر کے چوبدار تک ہر شخص اپنے کردار میں رچا بسا تھا، اور اس نے اپنے فنکار ہونے کا حق ادا کیا، ان سب دوستوں پر قوال کی محنت کی داد نہ دینا بہت زیادتی ہو گی، جس نے سارے ڈرامے کی تسبیح میں ایک ڈوری کا کام کیا۔
سچ پوچھئے تو اس ڈرامے کی ہر ہر چیز خوبصورت تھی، مجھے اس میں کسی قسم کا کوئی نقص نظر نہیں آیا، سب سے خوش آئیند اور خوبصورت بات یہ تھی کہ پاکستانیوں سے زیادہ ڈینش لوگوں کی تعداد اس ڈرامے کو دیکھنے کے لئے آئی تھی۔ اور جب فنکاروں کو داد دینے کی باری آئی تو ہال اپنی جگہوں پر اٹھ کھڑا ہوا، ایک کے بعد ایک ایک فنکار سٹیج پر جلوہ افروز ہوتا لیکن حاظرین کی تالیوں میں ایک لمحے کا توقف بھی نہیں آیا، لوگ مسلسل تالیاں بجاتے رہے حتی کے بھلے شاہ کا کردار نبھانے والے فنکار بھی سٹیج پر آ گیا۔
آج کی یہ شام اور رات ڈنمارک پاکستان کی تقافت میں تبادلے میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، دونوں ممالک کے سفیران محترم نے ایسی تقاریب کو بڑھانے اور مزید فنکاروں کا تبادلہ کرنے پر زور دیا۔ اور عام لوگوں کے چہروں پر ایک طمانیت تھی، محبت کے آفاقی پیغام کو پاکر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر مسکرانے کی قوت ہال میں موجود ہر شخص نے محسوس کی۔
اجوکہ تھیٹر کی ڈنمارک آمد بارش کا پہلا قطرہ تھی، جس پر بلاشبہ دونوں ممالک کے سفارت کار خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ آنے والے دنوں میں پاکستان سے ایسے ہی خوب رنگ ہوا کے جھونکے ڈنمارک پہنچیں اور یہاں کے لوگوں اس دیس کی خوبصورتیوں سے روشناس کروائیں۔ پاکستان سے باہر بیٹھے پاکستانی اپنی پہچان کے لئے ہمیشہ پاکستانی کی طرف ہی دیکھتے رہیں گے، وہ ممالک جہاں نان شبینہ کمانے کی فکر لوگوں کے سر کی تلوار نہیں وہاں طبیعت کا ادب و ثقافت میں آسودگی تلاش کرنا عام سی بات ہے، اور ایسے لوگوں کے دل میں گھر کرنے کے لئے ادب، آرٹ اور ثقافت کے تبادلہ سے زیادہ موثر ہتھیار کوئی نہیں۔ ویلڈن اجوکا ٹیم، اور ویلڈن سفارت خانہ پاکستان۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں