میری فوج، میرا فخر

میرا بچپن فوج اور فوجیوں سے عشق میں گزرا ہے، میں وہی بچہ ہوں جسے تصاویر میں آپ نے سڑک کنارے فوجیوں کی گزرتی گاڑیوں کو سیلوٹ کرتے ہوئے دیکھا ہوگا، یہ عشق اس لئے بھی ہے کہ میرے والد صاحب آنریری نائب صوبیدار ریٹائرڈ ہوئے، شاید اس فطری محبت کی وجہ سے بھی فوج میرے دل کے بہت قریب رہی ہے، میں وطن کی ناموس کے لئے مرنے والے ہر سپاہی کو اپنا بھائی سمجھتا ہوں۔ اپنے جسموں سے بم باندھ کر ٹینکوں کی باڑوں کے آگے لیٹ جانے والے ہر محب وطن کو اپنا محسن گردانتا ہوں۔ آپ وطن کی محبت کا کوئی ترانہ سنا کر مجھے کبھی بھی آنکھیں نم کرنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

جوان ہونے کا مفہوم میرے باپ کے نزدیک فقظ فوج کا سپاہی ہونا تھا، وہ بڑے فخر کے ساتھ ان جوانوں کا تذکرہ کرتے جنہوں نے کسی بھی جنگ کو بڑے پاس سے دیکھا تھا۔ ایک خاص قسم کی مضبوطی اور ڈسپلن ان کے اندر تھا، قہقہہ لگانے والی بات پر بھی بس مسکراتے تھے، مشکل میں بس خاموشی اختیار کرتے تھے اور سوچتے رہتے تھے۔ کبھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرتے تھے، اور چپ چاپ سارا دن کسی نہ کسی کام میں لگے رہتے۔ ہمارے ہاں لوہے کے فوجی طرز کے بیڈ ہوا کرتے تھے، جن میں ایک سفید چوڑی پٹی استعمال ہوتی تھی، اور کچھ نہیں تو ان ہی پٹیوں کو کسنے لگ جاتے۔ گھر میں کوئی کام نہ رہتا تو کھانا پکانے میں مشغول ہوجاتے۔ میں نے ان کو خود کلامی کے انداز میں کبھی کبھار گنگناتے بھی سنا ہے۔ فوج کا تذکرہ ان کی زندگی تھا۔ وہ فوجی تربیت کی ایسی تصویر کشی کرتے کہ مجھے لگتا کہ میں پریڈ گراؤنڈ کی چپ راست کا حصہ رہا ہوں۔ ملٹری پولیس کی ڈیوٹیاں، جنگی مشقوں کی کارستانیاں، جونئیر افسروں کے میس کے قصے، سینئر فوجی افسروں کے قصے وہ سب کچھ کسی کمنٹری کی طرح بیان کرتے اور خود کو ہمیشہ تازہ دم اور جوان رکھا کرتے۔
میں خود کو بھی عام زندگی میں اپنے والد کی فوج کا ایک بانکا سپاہی ہی سمجھتا آیا ہوں، جو جانثار تو تھا لیکن کہیں کہیں فرمانبرداری سے چوک جاتا تھا، وہ میری کج ادائیوں پر گہری نظر رکھتے اور بڑی سنجیدگی سے سمجھاتے۔ ایسا سمجھاتے کہ متانت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیتے، میں کبھی پرانی غلطی کو نہ دہرانے کا عزم کرتا۔ والد صاحب کو ہم سے جدا ہوئے 8 سال بیت گئے، مگر ایک جوان اور سپاہی کی سوچ آج بھی مجھ پر طاری رہتی ہے، ایک ایسا شخص جو مسلسل کام کرنے پر یقین رکھتا ہو، حکم کا معنی اور اطاعت کی تفہیم سے آشنا ہو، اور سب سے بڑھ کر وطن کے لئے جان نثار کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔
لیکن آجکل مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کی بساط پر جو چالیں چلی جارہی ہیں، ان میں پاکستانی افواج کے خلاف بڑی ہوشیاری سے گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے، ہر واقعہ کے بعد میڈیا پر فوج کے کردار کو مشکوک بنانے کی مذموم سازش محسوس کرنے کے افلاطون ہونے کی بھی ضرورت نہیں۔ وہ آزادی جس کی قیمت میرے ملک کے سپاہیوں کی خون سے ادا کی گئی ہے۔ اسی چھت کے نیچے بیٹھ کر کچھ لوگ ہر بُری بات کا چرچا کرنے میں یوں مصروف ہیں کہ چند لوگوں کی غلطیوں کی کالک سے پورے ادارے کے ماتھے پر کلنک لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔
پچھلے چھ سات ماہ سوشل میڈیا پر کچھ دوستوں کا محبوب مشغلہ افواج پاکستان پر سنگ دشنام اور تیر الزام برسانا ٹھہرا۔ مجھے خبر نہیں ڈیفینس سوسائٹیوں میں لگی لفٹوں میں تفریق پر واویلا مچانے والے اپنے دفتر کا ٹائلٹ بھی کسی کو استعمال کرنے دیتے ہیں یا نہیں، جہاں مسجدوں میں امام صاحب نے اپنے غسل خانے کو اپنا تالا لگا رکھا ہو، وہاں مساوات نہ ہونے کی شکایت عام آدمی سے کیونکر؟
کیپٹن بلال کی نئی گاڑی کی مبارکباد کا ڈرامہ بھی سنا ہے ڈراپ سین ہوگیا، موٹر وے پولیس سے ہوئی مڈبھیڑ پر جو لوگوں نے واویلا مچایا کاش ایسا ہر توجہ طلب معاملے پر ہماری قوم کا وطیرہ ٹھہرے، ہر روز پاکستان میں اتنے مسائل جنم لیتے ہیں کہ الامان،ملتان میں ٹرینیں ٹکرائیں، بچوں کے پارک میں جھولا گرا، نندی پور کا ریکارڈ جلا، لاہور میں امراء کے ہاتھوں غریب کا بچہ مرا، اسی خبر میں نام اور علاقہ بدل لیجئے اور دو درجن فقرے ان بے گناہ مقتولوں کے نام داغے جا سکتے ہیں، ان بر مزار ما غریباں نے چراغ نے گلے، کوئی ان کو رونے والا نہیں کامران فیصل کے بوڑھے باپ سے جو بیتی وہ بھی تو کسی فورس کا نمائندہ ہی تھا ناں؟
لیکن پاک فوج کی ہر بات پر خبر بنانے والے نجانے کس ایجنڈا پرکام کر رہے ہیں، ان کا شور اور واویلا اس سارے ہجوم میں سب سے سوا ہے، میں ہرگز بھی کسی برائی کی حمایت نہیں کرتا۔ دو اغلاط سے ایک درست بنانے کی تاویل بھی مناسب نہیں، جو پاک فوج میں خراب ہے اس کی بلاشبہ نشاندہی ہونی چائیے، اور ان لوگوں کو عام لوگوں سے بڑھ کر سزا ملنی چائیے جنہوں نے ناصرف نافرمانی کی بلکہ اعتماد کے مقدس رشتے کا خون بھی کیا۔ لیکن ایک ایسی فضا پیدا کردینا، جس میں ہر شخص کی بندوق کا رخ صرف اک ہی سمت ہو تو ایسی جانبداری کسی صورت بھی گوارہ نہیں۔ شاید ایسے لوگ مجھ ایسے خاموش محبت کرنے والوں کو بھولے بیٹھے ہیں، جن کی نظر چند کرپٹ فوجیوں پر نہیں بلکہ ہر اس جوان پر ہیں، جس کی مشقت اور عزم کی دنیا گواہ ہے، جس نے مشکل کی کسی بھی گھڑی میں پیچھے ہٹنا نہیں سیکھا، بلکہ وطن کی حفاظت کو ہی اپنا نصب العین جانا ہے۔
ہم خود ٹاٹ کے اسکولوں میں پڑھے ہیں اور ہمیں وہ کھاٹ کبھی میسر نہیں آئی جن کے نوحے سوشل میڈیا کی زینت بنے ہیں، نہ ہی ہماری ڈبل روٹیوں کو جیم کی عادت رہی ہے، میرے والد صاحب تو سن ترانوے میں ریٹائرڈ ہوگئے تھے ہوسکتا ہے اب آرمی والوں کے بچوں کے حالات سدھر گئے ہوں، جس کیوجہ سے بہت لوگوں کو احساس محرومی ہو رہا ہو۔
پاکستانی فوج  پر تنقید کرنے والوں کو خبر ہونی چاہیئے کہ وہ جو ساڑھے چھ، سات لوگ سروس میں ہیں ان کے علاوہ بھی لگ بھگ پانچ لاکھ بس ایک چٹھی کے منتظر رہتے ہیں کہ کب بلاوا آئے اور وہ ہتھیار سجا کر میدان میں نکلیں۔ ان گیارہ لاکھ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن کی ذاتی زندگی ان کے پیشے پر حاوی ہوگئی ہو، لیکن مجھے یقین ہے کہ پاک فوج ہی پاکستان کی سالمیت کی علامت ہے، اس کے خلاف بولنے والوں کو زبان کھولنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچنا چاہیے کہ،
شہر کو فکر تباہی کی ہوا کرتی ہے
جنگ تو صرف سپاہی کی ہوا کرتی ہے
نوٹ۔ یہ تحریر ایکپریس بلاگ میں چھپ چکی ہے۔ http://www.express.pk/story/608396/ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں