کامران فیصل ۔۔۔۔سچائی کی موت

ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک بہن کی مرنے والے بھائی کے بارے جذباتی گفتگو میں مرحوم کا کہا ہوا ایک فقرہ میرے ذہن کو جھنجھوڑے جا رہا ہے کہ شاید اللہ تعالی اس سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے اور پھر بڑا کام یہ ہوا کہ کسی دباو کے تحت اسی بہادر انسان نے خود کشی کر لی۔۔۔اب تک جتنی باتیں کامران فیصل سے متعلق سن رہا ہوں مجھے کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ وہ ایک دباو کا شکار ہونے والا شخص تھا۔۔۔۔۔جنگ اخبار کی کل کی شہہ سرخی یہی تھی کہ ابتدائی رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ مرحوم نے خود کشی کی ہے اور ساتھ یہ اسی خبر میں لکھا گیا ہے کہ ورثا نے تشدد زدہ لاش میڈیا کے سامنے پیش کر دی۔۔۔۔۔۔۔مجھے افسوس ہے کہ میرے میاں چنوں کے دوست اس شخص سے بے خبر ہیں۔۔۔میری ساری سوچیں میڈیا پر چلنے والی خبروں سے ماخوذ ہیں۔۔۔۔۔
سرکاری نوکری اور اس میں مجبوریوں کی ساری کہانیوں سے میں بخوبی آشنا ہوں کیونکہ میں ڈیڑھ دو برس سرکار کی نوکری کا لطف اٹھا چکا ہوں۔۔۔۔اگر کامران فیصل کوئی ڈرپوک قسم کا افسر ہوتا تو ایسا سکینڈل کبھی بھی اخباروں کی زینت نہ بنتا کیونکہ سرکاری ہرکارے دفتری گفتگو، چٹھیوں کے جوابات مختلف شکایات کے مدلل جوابات دینے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے ہیں۔۔۔اگر اس فائل کو کسی گڑھے میں دفنانا ہوتا تو یقین مانئے کہ اس کے ہزار ہا راستے ہو سکتے ہیں۔۔۔۔لیکن کوئی ایسا شخص تھا جو اس سارے کام میں رکاوٹ تھا۔۔۔کوئی تھا جو چاہتا تھا کہ اس کرپشن کا ساری قوم کو پتہ چلے۔۔۔۔وہ ایک شخص نہیں وہ ایک سے زیادہ لوگ بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ہمارے سرکاری ماحول میں ایک آدمی کا کسی مسئلے پر ڈٹ جانا کافی ناممکن ہوتا ہے لیکن سہرا تو کسی ایک کے سر بندھتا ہے ۔۔۔۔سو کامران فیصل کی ہمت کی داد دینی چاہیے کہ اس نے کسی موجودہ حکومت کے خلاف ایک کیس کو قبول کیا اور اس پر کام شروع کیا۔۔۔بلکہ ابتدائی طور پر ایک تھیسس بھی ڈویلپ کر لیا۔۔۔۔۔میں اپنے پورے وثوق سے کہتا ہوں اتنا کام کرنے والا شخص اتنا دباو کا شکار ہرگز نہیں ہوسکتا کہ خود اپنی جان لے لے۔۔۔۔۔۔ہاں ہو سکتا تھا کہ وہ استعفی دے دیتا اور کہتا مجھے آزادانہ کام نہیں کرنے دیا جا رہا۔۔۔یا نوکری کو خیر آباد کہ دیتا لیکن ایسا انتہائی کام کرنا اس کے بیان اور عمل سے کوئی ایسا سرا ہاتھ نہیں آتا کہ ذہن کو اطمینا ن  کے راستے پر ڈالا جا سکے۔۔۔۔۔
دراصل کامران فیصل کی موت اس معاشرے میں سچائی کی موت ہے۔۔۔وہ دباو تھا یا قتل وہ ہمارے معاشرے میں سچائی پر دباو اور سچائی کا قتل تھا۔۔۔۔۔اب کتنی اور لاشیں درکار ہیں ہماری آنکھیں کھلنے کے لئے۔۔موجوں کے مخالف پرواز کرنے والوں کے پر کاٹنے کا یہ سلسلہ نجانے کب سے جاری ہے۔۔۔۔۔سپریم کورٹ کا کوئی رجسٹرار ہو یا ابن اصغر خان۔۔۔سب کے سچ کا گلا گھونٹے والے اپنی طاقت کو سمجھتے ہیں۔۔۔۔اور ایک ہم ہیں کہ آج تک اپنی طاقت کو نہیں سمجھے۔۔۔۔ہماری طاقت اکھٹا ہونا ہے۔۔۔ایک ہو جانا ہے ان طاقتور لوگوں کے خلاف ۔۔۔۔خدارا ان ظالموں کے خلاف آواز اٹھائیے ورنہ اب کی بار اپنی باری ہے۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ فہرست میں اور دوستوں کے نام آئیں ہمیں فیصلہ کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


(یہ خبر ایکسپریس نیوز کی ہے جس کے متن سے تو لگتا ہے کہ کسی نے کمرے میں بیٹھ کر ایک خود کشی کرنے والے کی خبر لکھ دی)
اسلام آ باد: رینٹل پاور انکوائری میں معاونت کرنے والے نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کامران فیصل نے خودکشی کرلی۔
کامران فیصل نیب ہیڈ کوارٹر سے ملحقہ فیڈرل لاجز ٹو کے کمرہ نمبر ایک میں رہائش پذیر تھے، ملازمین نے دن 12 بجے تک دروازہ نہ کھلنے پر پولیس کو اطلاع دی جس کے بعد دروازہ کھولا تو کامران فیصل کی لاش پنکھے سے جھول رہی تھی پولیس نے لاش اتار کر پورسٹمارٹم کے لیے پمز اسپتال بھجوا دی اور جائے حادثہ کی باریک بینی سے تلاشی لی۔
نیب ذرائع کے مطابق کامران فیصل رینٹل پاور کیس میں تفتیشی افسر اور ڈائریکٹر اصغر خان کے ساتھ کام کررہے تھے اور کئی بار اعلی حکام کو اس تفتیش سے الگ ہونے کی درخواست کر چکے تھے ، نیب ذرائع کا کہنا تھا کہ تفتیش سے الگ نہ کیے جانے کے باعث کامران فیصل شدید ذہنی دباؤ کا شکار بھی تھے ، کامران فیصل کا تعلق میاں چنوں سے ہے اور پسماندگان میں بیوہ ، دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔ اس موقع پر چیئرمین نیب ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا اور کامران فیصل کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک محنتی افسر ہم سے جدا ہو گیا۔
http://www.express.pk/story/79479/


یہ عبارت فیصل کامران کے والد کی طلعت حسین کے پروگرام میں گفتگو کا ایک حصہ ہے۔۔۔۔۔  
http://www.zemtv.com/2013/01/21/live-with-talat-kia-kamran-faisal-ki-laash-bolegi-21st-january-2013/

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں