سٹیج فوبیا یا ناظرین کا سامنا کرنے کا خوف

سامعین و ناظرین کا سامنا کرنے کا خوف حسن ادائیگی کے راستے کی بڑی رکاوٹ ہے
 اہلِ دانش نے اس کیلئے "سٹیج فوبیا کی ترکیب استعمال کی ہے۔ یہ خوف کیسا خوف ہے کہ اچھے بھلے میدان کے کھلاڑی چند لفظ ادا کرتے ہوئے کانپنے لگتے ہیں۔ میں نے خود دیکھا ہے! ایک صاحب نے دوران تقریر گبھراہٹ سے اپنے بوٹ اتار دیئے اور ننگے پاؤں کھڑے ہو گئے انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ بوٹ جو انہوں نے صبح سے پہنے ہوئے ہیں اگر نہ اتارے تو وہ گر پڑیں گے!
بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی ۔ سانس پھول جاتی ہے، یاد کیا ہوا بھول جاتا ہے فقروں کی ترتیب بدل جاتی ہے، لوگ خوا مخواہ کسی سنجیدہ بات پر ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بات میں اثر اور زور کم ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہجہ تبدیل ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہونٹ جڑ نے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔ گلا خشک ہو جاتا ہے! آواز بیٹھ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ایسے ہی بے شمار چھوٹے چھوٹے اشارے جو اسی بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ مقرر ابھی بھی سٹیج پر سیٹ نہیں ہو پایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض لوگ انہی واہموں کے ڈر سے سٹیج پر آنے سے کتراتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ڈر اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک دفعہ پروگرام کے دوران سب سے زیادہ ہوٹ کر نے والے کو پکڑ کر صرف اتنا کہا گیا کہ یہ جو کچھ تم سیٹ پر بیٹھ کر کر رہے تھے صرف ایک دفعہ ڈائس پر آکر کر دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شخص کانپنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معذرت اور جواز پیش کر نے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے کہا گیا تمہیں انعام دیا جا ئے گا ۔۔۔۔۔۔ حقیقتاً تمہیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس پر بد حواسی طاری تھی اس کا کہنا تھا کہ وہ سٹیج پر جا کر ایک لفظ نہیں کہہ پائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔! اتنا زیادہ فرق کیوں ہے کہ مجمع میں بیٹھ کر جو واشگاف چلا سکتا ہے وہ اتنی ہی شدت سے ڈائس پر بول نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
یہ تصویر کا صرف ایک رخ تھا کہ لوگ ڈر جاتے ہیں اس کا دوسرا رخ بہت دلکش ہے۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ ہر اچھا مقرر آغاز میں ڈائس یا سٹیج پر سیٹ نہیں ہوتا اس کو کچھ لمحے درکار ہوتے ہیں خود کو سٹیج کے ماحول سے مطابقت پیدا کر نے کیلئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہلکی سی گبھراہٹ، ہلکا سا خوف ، ذرا تیز دھڑکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب باتیں سب کے ساتھ پیش آتی ہیں مگر جو جتنی جلدی ان پر قابو پالیتا ہے وہ اتنا اچھا مقرر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ایسا کیوں ہوتا ہے؟ آغاز میں ہلکی سی گبھراہٹ کیوں ہوتی ہے؟ یہ تو سراسر قدرتی امر ہے کہ آپ ایک نئی جگہ پر بہت سے نئے لوگوں کے سامنے کھڑے ہیں۔اگر یہ جگہ بھی نئی نہیں اور لوگ بھی نئے نہیں تو ہو سکتا ہے کہ آپ کچھ نیا پیش کر نے والے ہوں۔ہر دو صورتوں میں آغاز کی ہلکی گبھراہٹ ہوتی ہے اور یہ ہونی بھی چاہیے کہ آپ کے حساس ہونے کی نشاندہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بزرگ کہتے ہیں یہ ڈر اس لئے بھی آدمی کو لگتا ہے  کہ اس کو یہ محسوس ہو تا ہے کہ شاید وہ سامعین کے مطابق اچھا نہ بول پائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا وہ اتنی اچھی ادائیگی نہ کر پائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جونہی وہ آغاز کر چکا ہوتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے اچھا بس یہی کچھ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ہونا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ ڈھلوان سے اترتے سائیکل کی طرح گفتگو کا بس رخ بدلتا ہے۔ باقی سب کام خود بخود آہستہ آہستہ ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عملی طور پر آپ یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ اگر سامعین ایسے ہیں جن کے بارے آپ کی رائے یہ ہے کہ ان کو تو کچھ بھی پتہ نہیں تو آپ بہت زیادہ مطمئن ہوں گے۔ بہت جلد اپنی گبھراہٹ پر قابوپالیں گے۔۔۔۔۔۔ بہت جلد اچھا بولنے لگیں ہیں ۔ لیکن اگر سامعین آپ سے علم میں زیادہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زیادہ تجربہ کار ہیں تو آپ یقیناًذرا کم اطمینان میں ہوں گے۔۔۔۔۔۔ ذرا دیر سے گبھراہٹ پر قابو پائیں گے۔اسی بات کے پیشِ نظر مشہور لطیفہ ’’بندے بندے ہوندے آ تے گوبھی گوبھی ہوندی آ‘‘ گھڑا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ سمجھ لیں گے آپ کے سامعین ’’گوبھی‘‘ ہیں یعنی گونگے ہیں، یا کچھ نہیں جانتے تو آپ کیلئے بولنا بہت آسان ہو جائے گا!
Stage Phobiaکے حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اچھی طرح یہ بات سمجھ لیں کہ یہ ایک بالکل ’’نارمل‘‘ سا مسئلہ ہے آغاز میں ہلکی سی گھبراہٹ سب کو ہوتی ہے اور ہونی چاہیے۔ یہ زندہ ہو نے کی علامت ہے۔ آپ کے حواس کے صحیح ہو نے کا پتہ دیتی ہے۔ ہاں اگر آپ کو بالکل گبھراہٹ نہیں ہوتی تو یہ ضرور سوچئے کہ کہیں آپ کا فن جامد تو نہیں ہو گیا۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کا آگے بڑھنے کا جذبہ تو نہیں ٹھہرا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ کی اس بات سے بھی تسلی نہیں ہوتی تو اس کا بھی حل کئے دیتا ہوں!
* تقریر /مباحثہ، یا جو بھی چیز آپ پیش کر نے جارہے ہیں اس کو اچھی طرح یاد کر لیں تا کہ وہ آپ کے لاشعور میں جا سما ئے! یعنی اتنی اچھی طرح یاد ہو کہ آپ کمپیوٹر پہ بیٹھے گیم کھیل رہے ہوں لیکن لفظ اپنی اصل ترتیب میں ادا ہو تے رہیں۔
* آغاز پر ہمیشہ ایسی چیز لگائیے جو آپ کو بہت پسند ہو جسے آپ انتہا ئے کمال کیساتھ پڑھ سکتے ہوں۔ کیونکہ ایک دفعہ آپ نے آغاز کے چند لمحے گزار لئے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں رہے گا بلکہ آپ مزے کی دنیا میں داخل ہو جائیں گے۔
* یہ سمجھ لیں کہ سامعین کی توقعات آپ کے بارے بہت زیادہ اونچی نہیں یا پھر یوں سمجھ لیں کہ آپ جیسا بھی بولے سامعین اسے پسند ہی کریں گے۔
* جس جگہ آپ نے تقریر کرنی ہے وہاں وقت سے ذرا پہلے پہنچیں ہو سکے تو اس ڈائس پر کھڑے ہو کر دیکھیں اس سٹیج پر چند قدم چل لیں جہاں آپ نے پر فارم کر نا ہے۔
* لباس کا انتخاب مناسب کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا سب سے پسندیدہ لباس پہن کر جائیں ۔ خوب بن سنور کر جائیں آپ یقیناًفر ق محسوس کریں گے۔
* آپ کا پیش کر دہ میٹریل آپ کی اپنی زبان میں ہو یعنی خدانخواستہ اگر آپ نے کسی اہل قلم سے مدد لی ہے تو اس کو پہلے اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیں۔
* گلا خراب /خشک ہو نے کا ڈر ہو تو پروگرام یا اپنی باری سے کچھ پہلے  اگر دستیاب ہو تو جوشاندہ ، وگرنہ سادہ پانی پی

لیں۔ پھر اس کے بعد جتنا بھی دل چاہے دوبارہ پانی نہ پئیں یہ صرف آپ کے اندر کا ڈر ہے۔

اگر آپ کو گلا خشک ہونے کا بہت زیادہ ڈر ہے تو  جیب میں لیمن یا اورنج فلیور کی کینڈیز رکھیں اور بوقت ضرورت چوس لیں۔
* پروگرام سے پہلے سامعین سے مل لیں یعنی گھل مل جائیں یہ بھی خاصا مدد گار ثابت ہوگا۔
* چہرے پر ایک مسکراہٹ سجا کے رکھیں خواہ ضرورت ہو نہ ہوش۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پریشانی خود بخود بھاگ جائے گی۔
* اپنے ڈائس پر آنے کا مقصدیاد رکھیں۔ اگر آپ کسی بہت بڑے مقصد کیلئے سٹیج پر آتے ہیں تو آپ کا مقصد آپ کو اپنے قد جتنا حوصلہ دے گا۔ یعنی جتنا بڑا مقصد اتنا بڑا حوصلہ ہوگا۔
* اپنی گفتگو اور کامیابی کو اپنی انا کی ڈور سے باندھ دیں! کہ اگر آج اچھا پرفارم نہ کر سکا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میرے ادارے میری مادر علمی کی عزت پر حرف آئے گا۔
* اپنے استاد کے بارے سوچیں کہ اس نے جس محنت سے آپ کو سکھایا ہے میرا ہارنا مجھے تو زیب دیتا ہے اس کے  شایاں نہیں۔ 
* اپنی کسی بھی محبت سے تقویت حاصل کریں۔ کسی استاد یا والدین میں کسی کو دعوت دیں، اپنے دوستوں کو پروگرام میں بلا لیں۔
* الغرض جتنے مسائل یا د تھے ان کے حل پیش ہیں۔ اگر ان سے بھی آپ کا مسئلہ حل نہیں ہوتا اور آپ مذہب سے رغبت رکھتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔۔ ایک آخری حل جوان سبھی تجاویز پر بھاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’رب الشرح لی صدری و یسر لی امری و احلل مقدہ من لسا نلہ‘‘
یا د کر لیں اور سٹیج پر جانے سے پہلے تین دفعہ پڑھ لیں سمجھ لیں کہ آپ کا بیڑا پار ہے۔۔۔۔۔۔!

اک تعویذ گلے میں میرے ایک ہے میرے بازو پر
اک پر تیرا نام لکھا ہے اک پر اسم اعظم ہے (شوکت فہمی)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں